![]() |
![]() |
![]() |
---|
مرکز علم وتربیت :جامعہ دارالعلوم سکھر کا قیام ، دراصل مدارس ِ دینیہ اور مراکز ِ علمیہ کے اس تاریخی تسلسل کی ایک کڑی ہے ۔ جس کی ابتدا، خودسرکار ِ دوعالم ﷺ نے مسجد نبوی سے متصل ، صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت کے لئے قائم کردہ‘‘صفہ ’’ کی درس گاہ سے کی ۔فیضان ِ ‘‘صفہ ’’ کی روشن کرنوں نے عالم ِ اسلام کے ہر خطہ میں اپنا ایمانی اورعلمی نور پہنچایا ۔ جس کی روشنی سے چہار سو علم کی شمعیں اورمعرفت کی قندیلیں روشن ہوئیں ۔ باب الاسلام سندھ نے بھی پہلی صدی ہجری میں ہی ‘‘صفہ ’’ کی ایمانی وعلمی قندیل سے روشنی پا کر ایمان واتقان ،علم وعرفان ، تعلیم وتربیت کی روشن مثالیں قائم کی ۔دیبل ،منصور ہ، اروڑ ، بکھر ، ٹھٹہ اور سیوستان ،قدیم سند ھ کے وہ علمی شہر ہیں ، جو علمی لحاظ سے مدینہ ، کوفہ ، بصرہ ،بغداداور عالم ِ اسلام کے دیگر مراکز علمیہ سے کسی طرح بھی کم نہ تھے ۔سندھ سے تعلق رکھنے والے اہل علم میں سےامام ربیع بن صبیح سندھی ؒامام مغازی ابو معشر سندھی ؒ، شیخ الاسلام امام اوزاعی ؒمخدوم رحمت اللہ سندھی ؒ (صاحب مناسک ) ، مخدوم محمد جعفر بوبکائی ؒ، مخدوم ابوالحسن کبیر سندھی ؒ(صاحب حواشی صحاح ستہ )مخدوم محمد معین ٹھٹویؒ ،شیخ محمد حیات سندھی مدنیؒ ، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی ؒ ، مخدوم ابوالحسن صغیر سندھی ؒ، مخدوم محمدحیات سندھی ؒ، مخدوم محمداکرم نصرپوری ؒ، مخدوم عبد الواحد سیوستانیؒ اورمخدوم محمد عابد سندھی مدنی ؒ نے باب الاسلام سندھ اور مرکز اسلام مکہ ومدینہ میں درس گاہیں اور علمی حلقےقائم کر کے ، درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ اشاعت علم میں ایسا بےمثال کردار ادا کیا کہ بقول علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی ؒ:‘‘دنیائے اسلام میں ایسا کوئی سلسلہ
سند کم ملے گا جس میں ان سندھی بزرگوں کا نام اساتذہ وشیوخ کی لسٹ میں نہ ہو ’’۔
سند ھ میں کسی زمانے میں محفل علم کا یہ بھی عالم رہا ہے کہ بقول قطب الاقطاب حضرت مولانا شیخ حماد اللہ ہالیجوی نوراللہ مرقدہ سکھر کی تحصیل روہڑی میں بخاری شریف کی کئی حافظات ایک وقت میں پائی جاتی تھیں اور انگریز کی آمد سے قبل سندھ کے ایک شہر ٹھٹہ میں انگریز مؤرخین کے بقول چار سؤ جامعہ اور یونیورسٹی سطح کے علمی مراکز موجود تھے ۔ برصغیر میں انگرِیز کی آمد سے برصغیر کے دیگرخطوں کی طرح سندھ سے بھی علوم اسلامیہ اور مدارس دینیہ کی بساط لپیٹ دی گئی ، لیکن 1857ع کی جنگ آزادی کے بعد دیوبند سہارنپور میں ‘‘دارالعلوم دیوبند ’’کے نام سے مدارس دینیہ کے احیاء اور نشاۃ ثانیہ کی جو تحریک اٹھی ، اس کے اثرات باب الاسلام سندھ پڑ بھی پڑے۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے متصل ہی سند ھ میں ایک مرتبہ پھر مدارس دینیہ کا جال پھیل گیا ۔جامعہ دارالعلوم سکھربھی سندھ کے ان قدیم مراکز ِعلمیہ اور مدارس ِ دینیہ اور ‘‘دارالعلوم دیوبند ’’ کا فکری اور علمی تسلسل ہے ۔
جامعہ دارالعلوم سکھر کی باقاعدہ تاسیس 1428 ھ مطابق 2008ع جامع مسجد عثمانیہ بیراج کالونی سکھر سے متصل چند حجروں میں عمل آئی ۔ جہاں بچوں اور بچیوں کے لئے شعبہ درس نظامی ، حفظ وناظرہ ،تجوید وقرائت کےساتھ مختلف کورسز اور تعلیم بالغان کے سلسلہ میں ترجمہ وتفسیر قرآن کلاسز کا آغاز کیا گیا ۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد طالبان علم اور مہمانان رسول ﷺ کا رجوع بڑھنے کی وجہ سے وہ عمارت تنگی دامن کی شکایت کرنے لگی ۔ جس کی وجہ سے گورنمنٹ ہاؤسنگ سوسائٹی ایئر پورٹ روڈ سکھرمیں جامعہ دارلعلوم سکھر کے کئمپس ۲ کی تعمیرات کی گئی ۔بحمد اللہ 2015ع سے کئمپس۲ میں تعلیمی عمل شروع ہوچکا ہے ۔ کئمپس ۱عثمانیہ مسجد میں شعبہ ناظرہ، شعبہ حفظ وتجوید ، شعبہ بنات اور شعبہ بالغان مصروف عمل ہیں ۔ جبکہ درس نظامی بنین کئمپس ۲ گورنمنٹ ہاؤسنگ سوسائٹی ایئر پورٹ روڈ منقل کیا گیا ۔ جہاںتعلیمی عمل کے ساتھ تربیتی ،تحقیقی اور دعوتی شعبہ جات بھی مصروف کار ہیں ۔
1-تحصیل ِعلم کا مقصد ،رضائے الٰہی ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے اپنی نیت ٹھیک کرنی ہوگی۔
2-فرائض ، واجبات اورسنن ،بالخصوص نماز باجماعت، تکبیر ِاولیٰ کے ساتھ پڑھنے کا پورا اہتمام کرنا ہوگا۔اورجامعہ کی طرف سے متعینہ “تربیتی اعمال” کی پابندی ضروری ہوگی۔
3-اپنی وضع قطع علمائے امت وصلحائے ملت کے موافق رکھنی ہوگی ۔فیشن پرستی اور خلافِ سنت کاموں سے اجتناب ضروری ہوگا۔
4-اسباق میں حاضری اور اوقاتِ تعلیم کی پابندی ضروری ہوگی۔اور اس دوران مہمان سے ملاقات کی اجازت نہ ہوگی۔
5-ذمہ داران واساتذۂکرام اور کارکنانِ جامعہ ،نیز علم وعلماء اور اسبابِ علم کا احترام ضروری ہوگا۔
6-قیام کے لیے جو بھی جگہ ،ذمہ داران کی طرف سے متعین کی جائے گی ، اس جگہ رہنا لازم ہوگا۔
7-جامعہ کو صاف رکھنے کا اہتمام ضروری ہے اور اپنا بستر ،سامان ،چپل ودیگر اشیاء کو سلیقہ اور طے شدہ ترتیب کے ساتھ رکھنا ہوگا۔
8-ناظم ِ دارالاقامہ کی تحریری اجازت کے بغیر ،دارالعلوم سے باہر قیام ممنوع ہوگا۔ نیز کسی بھی غیر داخل شخص کو یہاں ٹھہرانے کی بالکل اجازت نہیں ۔
9- بغرضِ تفریح وخریدِ اشیاء ،عصر کے بعد اور بروز جِمعہ بازارجانے کی اجازت ہوگی ۔دیگر اوقات میں بلا اجازت جانا جرم شمار ہوگا۔
10-کیمرے/کارڈ والا موبائل رکھنا جرم ہے ،پکڑے جانے پر سال کے اختتام تک ضبط کردیا جائے گا۔ اخلاق سوز پروگرام ہونے پر اخراج بھی ہوسکتا ہے۔
11-ضروری بات چیت کے لیے سادہ موبائل رکھ سکتے ہیں، البتہ تعلیمی اوقات میں موبائل پر گفتگو سے اجتناب ضروری ہوگا۔
12- ضابطہ کی رخصت کے لیے ناظم اعلیٰ کی خدمت میں درخواست پیش کرنی ہوگی ۔ عذر کی صورت میں پہلےکم از کم دو اساتذہ کے دستخط بھی ہونے چاہیے۔
13-پانچ روز ہ متواتر غیر حاضری پر نام موقوف کردیا جائے گا اور دس روز ہ متواتر غیر حاضری پر نام خارج کردیا جائے گا۔
14-جامعہ میں دورانِ تعلیم ، سکول وکالج کے داخلۂامتحان کے لیے پیشگی اجازت ضروری ہوگی۔
15۔رئیس الجامعہ/ناظم اعلیٰ کی اجازت کے بغیر ،کسی جگہ ٹیوشن،مؤذنی یا امامت کا تعلق قائم کرنا ممنوع ہوگا۔
16- دارالعلوم کے جملہ املاک کی حفاظت ضروری ہے۔ ان کو کسی بھی قسم کا نقصان پہونچانا یا دیواروں پر لکھنا اور سٹیکر لگانا سخت جرم شمار ہوگا۔
17- نظامِ جامعہ کی پابندی کرنی ہوگی اور اس میں فتنہ وفساد سے اجتناب لازم ہوگا۔
18-جو طالب علم اکثر غیر حاضر رہتا ہو /جس کے چال چلن خراب ہوں /حکم عدولی اور گستاخی کرے اور فہمائش و تنبیہ سے بھی باز نہ آئے ،وہ آئندہ کے لیے داخلہ کا اہل نہ ہوگا۔
جامعہ دارالعلوم سکھر میں قیام کا مقصد ،حصولِ علم کے ساتھ کسبِ عمل اور اصلاحِ اخلاق بھی ہے ۔اس لیے طلبائے جامعہ کو “تعلیمی ارکان ”کے ساتھ درج ذیل “تربیتی اعمال” کی پابندی بھی کرنی ہوگی۔
1-اذان ِ فجر سے پونہ گھنٹہ قبل بیدار ہوکر نمازِ تہجد کی ادائیگی۔
2-نمازِ فجر کے بعد صبح کے مسنون اذکار اور تلاوت ِقرآنِ کریم۔
3-نوافل ِاشراق کی ادائیگی۔
4-نمازِ ظہر کے بعد تلاوتِ سورۃ یٰس۔
5-نمازِ عصر کے بعد علیکم بسنتی/آداب معاشرت/حیاۃ المسلمین کا درس۔
6۔نمازِ مغرب کے بعد اوابین کی ادائیگی اور شام کے مسنون اذکار۔
7-نمازِ عشاء کے بعد مجلسِ ذکر۔
8-سونے سے پہلے سورۃ الملک کی تلاوت۔
9-چوبیس گھنٹہ عملی زندگی میں سنتوں کا اہتمام اور آداب کی رعایت۔
10-عمامہ کا اہتمام اور سلام کا التزام ۔
11-بروزِ جمعہ مجلسِ درود شریف۔
12-ماہانہ ایامِ بیض کے روزوں کی ترغیب۔
1- حفظ کے لیے یادداشت بہتر اور ذہنی پختگی کا ہونا ضروری ہے۔
2- درسِ نظامی میں چودہ سال عمر اور کم از کم مڈل پاس ہونا ضروری ہے۔
3- کسی بھی درجہ میں داخلہ کے لیے ،قرآن پاک تجوید کے ساتھ پڑھا ہوا ہونا ضروری ہے۔
4- مطلوبہ درجہ میں داخلہ کے لیے سابقہ درجہ میں معیاری نمبرات کے ساتھ پاس ہونا ضروری ہے۔
5- سابقہ درجہ کی منتخب کتابوں سے داخلہ ٹیسٹ بھی لیا جائے گا۔
6- اس کے ساتھ ذہنی آزمائش ،سیرت و کردار اور ظاہری حلیہ بھی دیکھا جاتا ہے۔